EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ یہ کہتے ہیں صدا ہو تو تمہارے جیسی
اس کا مطلب تو یہی ہے کہ پکارے جاؤ

رؤف رضا




یوں ہی ہنستے ہوئے چھوڑیں گے غزل کی محفل
ایک آنسو سے زیادہ کوئی رونے کا نہیں

رؤف رضا




بہتر ہے اب دور رہو تم ٹیسو کے ان پھولوں سے
شوخ بہت ہے ان کی سرخی آئینہ دکھلائے تو

رونق نعیم




گلی گلی میں تکلف کی دھول ہوتی ہے
اب اپنا شہر بھی لگتا ہے اجنبی کی طرح

رونق نعیم




حالات خوں آشام سے غافل نہیں لیکن
اے ظلم ترے ہاتھ پہ بیعت نہیں کرتے

رونق نعیم




ان درختوں سے بھی ناطہ جوڑئیے
جن درختوں کا کوئی سایہ نہیں

رونق نعیم




سیکڑوں پل بنے فاصلے بھی مٹے
آدمی آدمی سے جدا ہی رہا

رونق نعیم