EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تیری نگہ سے تجھ کو خبر ہے کہ کیا ہوا
دل زندگی سے بار دگر آشنا ہوا

قیوم نظر




یاد آیا بھی تو یوں عہد وفا
آہ کی بے اثری یاد آئی

قیوم نظر




برعکس کیوں ہوا ہے زمانے کے پھیر میں
حیراں ہے کوئی دکھ میں کسے دسترس ہوا

قاضی محمود بحری




یک نکتہ نکتہ داں کوں ہے کافی شناس کا
اے قصہ خواں نہ بول حکایت قیاس کا

قاضی محمود بحری




آتش عشق سے بچئے کہ یہاں ہم نے بھی
موم کی طرح سے پتھر کو پگھلتے دیکھا

قیصر خالد




اب اس طرح بھی روایت سے انحراف نہ کر
بدل اگرچہ تو اچھا نہ دے، خراب تو دے

قیصر خالد




باتوں سے پھول جھڑتے تھے لیکن خبر نہ تھی
اک دن لبوں سے ان کے ہی نشتر بھی آئیں گے

قیصر خالد