لبوں کو کھول تو کیسا بھی ہو جواب تو دے
نہ بانٹ سود و زیاں کو مگر حساب تو دے
وفا، خلوص و محبت کو پھر سمجھنا ہے
کہاں لکھے ہیں یہ الفاظ تو کتاب تو دے
اب اس طرح بھی روایت سے انحراف نہ کر
بدل اگرچہ تو اچھا نہ دے، خراب تو دے
یہ کیا کہ اپنی ہی رفتار پر ہے وہ نازاں
کسی کے رینگتے قدموں کو آب و تاب تو دے
چھلک رہا ہے زمانے کے صبر کا پیالہ
ہمارے عہد کے فرعون کو عذاب تو دے
تپش نے وقت کی جھلسا کے ان کو رکھا ہے
خزاں نصیبوں کو تھوڑا سہی شباب تو دے
ہے اختیار میں جتنا ترے تو اتنا تو کر
نہ مل سکے کوئی تعبیر، ان کو خواب تو دے
میں تیری تنگ نگاہی کی کیا کروں تاویل
سلگتی آنکھوں کو پانی نہ دے سراب تو دے
یوں نسل نو کی ذہانت کو ممتحن نہ پرکھ
جسے پڑھے یہ نئی نسل وہ کتاب تو دے
کسی کو کیا ہے غرض جو پڑھے تری روداد
کرے اپیل کسی کو وہ ایک باب تو دے
تڑپ رہی ہے زمیں کب سے منصفی کے لئے
نبی نہیں تو زمانے کو بوترابؔ تو دے

غزل
لبوں کو کھول تو کیسا بھی ہو جواب تو دے
قیصر خالد