انہیں کیوں پھول دشمن عید میں پہنائے جاتے ہیں
وہ شاخ گل کی صورت ناز سے بل کھائے جاتے ہیں
اگر ہم سے خوشی کے دن بھی وہ گھبرائے جاتے ہیں
تو کیا اب عید ملنے کو فرشتے آئے جاتے ہیں
وہ ہنس کر کہہ رہے ہیں مجھ سے سن کر غیر کے شکوے
یہ کب کب کے فسانے عید میں دہرائے جاتے ہیں
نہ چھیڑ اتنا انہیں اے وعدۂ شب کی پشیمانی
کہ اب تو عید ملنے پر بھی وہ شرمائے جاتے ہیں
قمرؔ افشاں چنی ہے رخ پہ اس نے اس سلیقہ سے
ستارے آسماں سے دیکھنے کو آئے جاتے ہیں
غزل
انہیں کیوں پھول دشمن عید میں پہنائے جاتے ہیں
قمر جلالوی