EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کیوں اجاڑا زاہدو بتخانۂ آباد کو
مسجدیں کافی نہ ہوتیں کیا خدا کی یاد کو

پروین ام مشتاق




مخلوق کو تمہاری محبت میں اے بتو
ایمان کا خیال نہ اسلام کا لحاظ

پروین ام مشتاق




مر چکا میں تو نہیں اس سے مجھے کچھ حاصل
برسے گر پانی کی جا آب بقا میرے بعد

پروین ام مشتاق




مری قسمت لکھی جاتی تھی جس دن میں اگر ہوتا
اڑا ہی لیتا دست کاتب تقدیر سے کاغذ

پروین ام مشتاق




مدت سے اشتیاق ہے بوس و کنار کا
گر حکم ہو شروع کرے اپنا کام حرص

پروین ام مشتاق




مجھے جب مار ہی ڈالا تو اب دونوں برابر ہیں
اڑاؤ خاک صرصر بن کے یا باد صبا بن کر

پروین ام مشتاق




نہ آیا کر کے وعدہ وصل کا اقرار تھا کیا تھا
کسی کے بس میں تھا مجبور تھا لاچار تھا کیا تھا

پروین ام مشتاق