کیوں اجاڑا زاہدو بتخانۂ آباد کو
مسجدیں کافی نہ ہوتیں کیا خدا کی یاد کو
پروین ام مشتاق
مخلوق کو تمہاری محبت میں اے بتو
ایمان کا خیال نہ اسلام کا لحاظ
پروین ام مشتاق
مر چکا میں تو نہیں اس سے مجھے کچھ حاصل
برسے گر پانی کی جا آب بقا میرے بعد
پروین ام مشتاق
مری قسمت لکھی جاتی تھی جس دن میں اگر ہوتا
اڑا ہی لیتا دست کاتب تقدیر سے کاغذ
پروین ام مشتاق
مدت سے اشتیاق ہے بوس و کنار کا
گر حکم ہو شروع کرے اپنا کام حرص
پروین ام مشتاق
مجھے جب مار ہی ڈالا تو اب دونوں برابر ہیں
اڑاؤ خاک صرصر بن کے یا باد صبا بن کر
پروین ام مشتاق
نہ آیا کر کے وعدہ وصل کا اقرار تھا کیا تھا
کسی کے بس میں تھا مجبور تھا لاچار تھا کیا تھا
پروین ام مشتاق