اک ادنیٰ سا پردہ ہے اک ادنیٰ سا تفاوت
مخلوق میں معبود میں بندہ میں خدا میں
پروین ام مشتاق
جاں گھل چکی ہے غم میں اک تن ہے وہ بھی مہمل
معنی نہیں ہیں بالکل مجھ میں اگر بیاں ہوں
پروین ام مشتاق
جنوں ہوتا ہے چھا جاتی ہے حیرت
کمال عقل اک دیوانہ پن ہے
پروین ام مشتاق
کبھی نہ جائے گا عاشق سے دیکھ بھال کا روگ
پلاؤ لاکھ اسے بد مزہ دوائے فراق
پروین ام مشتاق
کس طرح کر دیا دل نازک کو چور چور
اس واقعہ کی خاک ہے پتھر کو اطلاع
پروین ام مشتاق
کسی کے سنگ در سے ایک مدت سر نہیں اٹھا
محبت میں ادا کی ہیں نمازیں بے وضو برسوں
پروین ام مشتاق
کچھ تو کمی ہو روز جزا کے عذاب میں
اب سے پیا کریں گے ملا کر گلاب میں
پروین ام مشتاق