دیکھنے والے یہ کہتے ہیں کتاب دہر میں
تو سراپا حسن کا نقشہ ہے میں تصویر عشق
پروین ام مشتاق
دلوایئے بوسہ دھیان بھی ہے
اس قرضۂ واجب الادا کا
پروین ام مشتاق
دیئے جائیں گے کب تک شیخ صاحب کفر کے فتوے
رہیں گی ان کے صندوقچہ میں دیں کی کنجیاں کب تک
پروین ام مشتاق
فرق کیا مقتل میں اور گلزار میں
ڈھال میں ہیں پھول پھل تلوار میں
پروین ام مشتاق
گر آپ پہلے رشتۂ الفت نہ توڑتے
مر مٹ کے ہم بھی خیر نبھاتے کسی طرح
پروین ام مشتاق
ہوا میں جب اڑا پردہ تو اک بجلی سی کوندی تھی
خدا جانے تمہارا پرتو رخسار تھا کیا تھا
پروین ام مشتاق
ہوتی نہ شریعت میں پرستش کبھی ممنوع
گر پہلے بھی بت خانوں میں ہوتے صنم ایسے
پروین ام مشتاق