EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اگر لوہے کے گنبد میں رکھیں گے اقربا ان کو
وہیں پہنچائے گا عاشق کسی تدبیر سے کاغذ

پروین ام مشتاق




اہل دنیا باؤلے ہیں باؤلوں کی تو نہ سن
نیند اڑاتا ہو جو افسانہ اس افسانہ سے بھاگ

پروین ام مشتاق




اے صبا چلتی ہے کیوں اس درجہ اترائی ہوئی
اڑ گئی کافور بن بن کر حیا آئی ہوئی

پروین ام مشتاق




بال رخساروں سے جب اس نے ہٹائے تو کھلا
دو فرنگی سیر کو نکلے ہیں ملک شام سے

پروین ام مشتاق




بد قسمتوں کو گر ہو میسر شب وصال
سورج غروب ہوتے ہی ظاہر ہو نور صبح

پروین ام مشتاق




بھیج تو دی ہے غزل دیکھیے خوش ہوں کہ نہ ہوں
کچھ کھٹکتے ہوئے الفاظ نظر آتے ہیں

پروین ام مشتاق




چبھیں گے زیرہ ہائے شیشۂ دل دست نازک میں
سنبھل کر ہاتھ ڈالا کیجیے میرے گریباں پر

پروین ام مشتاق