میں اب تو اے جنوں ترے ہاتھوں سے تنگ ہوں
لاؤں کہاں سے روز گریباں نئے نئے
نیاز فتح پوری
نہ دنیا کا ہوں میں نہ کچھ فکر دیں کا
محبت نے رکھا نہ مجھ کو کہیں کا
نیاز فتح پوری
تم تو ٹھکرا کر گزر جاؤ تمہیں ٹوکے گا کون
میں پڑا ہوں راہ میں تو کیا تمہارا جائے گا
نیاز فتح پوری
آئے بھی وہ چلے بھی گئے یاں کسے خبر
حیراں ہوں میں خیال ہے یہ یا کہ خواب ہے
نظام رامپوری
آنکھیں پھوٹیں جو جھپکتی بھی ہوں
شب تنہائی میں کیسا سونا
نظام رامپوری
آپ دیکھیں تو مرے دل میں بھی کیا کیا کچھ ہے
یہ بھی گھر آپ کا ہے کیوں نہ پھر آباد رہے
نظام رامپوری
اب آؤ مل کے سو رہیں تکرار ہو چکی
آنکھوں میں نیند بھی ہے بہت رات کم بھی ہے
نظام رامپوری