EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

موج تخیل گل کا تبسم پرتو شبنم بجلی کا سایہ
دھوکا ہے دھوکا نام جوانی اس کو جوانی کوئی نہ سمجھے

نثار اٹاوی




موسم گل ہے بادل چھائے کھنک رہے ہیں پیمانے
کیسی توبہ، توبہ توبہ، توبہ نذر جام کرو

نثار اٹاوی




ناہید و قمر نے راتوں کے احوال کو روشن کر تو دیا
وہ دیپ کسی سے جل نہ سکے جو دل میں اجالا کرتے ہیں

نثار اٹاوی




نگاہوں سے نا آشنا چند جلوے
پس لالہ و یاسمن اور بھی ہیں

نثار اٹاوی




قفس بھی ہے یہاں صیاد بھی گلچیں بھی کانٹے بھی
چمن کو ہم سمجھتے ہیں مگر اپنا چمن اب تک

نثار اٹاوی




شوق کتنے فریب دیتا ہے
مسکرا کر ہمارا نام نہ لے

نثار اٹاوی




صبح بچھڑ کر شام کا وعدہ شام کا ہونا سہل نہیں
ان کی تمنا پھر کر لینا صبح کو پہلے شام کرو

نثار اٹاوی