تر رکھیو سدا یارب تو اس مژۂ تر کو
ہم عطر لگاتے ہیں گرمی میں اسی خس کا
نظیر اکبرآبادی
تیشے کی کیا مجال تھی یہ جو تراشے بے ستوں
تھا وہ تمام دل کا زور جس نے پہاڑ ڈھا دیا
نظیر اکبرآبادی
تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے
وہ بھی اے شوخ ترا چاہنے والا نکلا
نظیر اکبرآبادی
ٹھہرنا عشق کے آفات کے صدموں میں نظیرؔ
کام مشکل تھا پر اللہ نے آسان کیا
نظیر اکبرآبادی
تھے ہم تو خود پسند بہت لیکن عشق میں
اب ہے وہی پسند جو ہو یار کو پسند
نظیر اکبرآبادی
توڑے ہیں بہت شیشۂ دل جس نے نظیرؔ آہ
پھر چرخ وہی گنبد مینائی ہے کمبخت
نظیر اکبرآبادی
تمہارے ہجر میں آنکھیں ہماری مدت سے
نہیں یہ جانتیں دنیا میں خواب ہے کیا چیز
نظیر اکبرآبادی