EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تر رکھیو سدا یارب تو اس مژۂ تر کو
ہم عطر لگاتے ہیں گرمی میں اسی خس کا

نظیر اکبرآبادی




تیشے کی کیا مجال تھی یہ جو تراشے بے ستوں
تھا وہ تمام دل کا زور جس نے پہاڑ ڈھا دیا

نظیر اکبرآبادی




تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے
وہ بھی اے شوخ ترا چاہنے والا نکلا

نظیر اکبرآبادی




ٹھہرنا عشق کے آفات کے صدموں میں نظیرؔ
کام مشکل تھا پر اللہ نے آسان کیا

نظیر اکبرآبادی




تھے ہم تو خود پسند بہت لیکن عشق میں
اب ہے وہی پسند جو ہو یار کو پسند

نظیر اکبرآبادی




توڑے ہیں بہت شیشۂ دل جس نے نظیرؔ آہ
پھر چرخ وہی گنبد مینائی ہے کمبخت

نظیر اکبرآبادی




تمہارے ہجر میں آنکھیں ہماری مدت سے
نہیں یہ جانتیں دنیا میں خواب ہے کیا چیز

نظیر اکبرآبادی