EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

رنج دل یوں گیا رخ اس کا دیکھ
جیسے اٹھ جائے آئینے سے زنگ

نظیر اکبرآبادی




سب کتابوں کے کھل گئے معنی
جب سے دیکھی نظیرؔ دل کی کتاب

نظیر اکبرآبادی




سرچشمۂ بقا سے ہرگز نہ آب لاؤ
حضرت خضر کہیں سے جا کر شراب لاؤ

نظیر اکبرآبادی




سرسبز رکھیو کشت کو اے چشم تو مری
تیری ہی آب سے ہے بس اب آبرو مری

نظیر اکبرآبادی




شب کو آ کر وہ پھر گیا ہیہات
کیا اسی رات ہم کو سونا تھا

نظیر اکبرآبادی




شہر دل آباد تھا جب تک وہ شہر آرا رہا
جب وہ شہر آرا گیا پھر شہر دل میں کیا رہا

نظیر اکبرآبادی




سنو میں خوں کو اپنے ساتھ لے آیا ہوں اور باقی
چلے آتے ہیں اٹھتے بیٹھتے لخت جگر پیچھے

نظیر اکبرآبادی