نہ میں دل کو اب ہر مکاں بیچتا ہوں
کوئی خوب رو لے تو ہاں بیچتا ہوں
وہ مے جس کو سب بیچتے ہیں چھپا کر
میں اس مے کو یارو عیاں بیچتا ہوں
یہ دل جس کو کہتے ہیں عرش الٰہی
سو اس دل کو یارو میں یاں بیچتا ہوں
ذرا میری ہمت تو دیکھو عزیزو
کہاں کی ہے جنس اور کہاں بیچتا ہوں
لیے ہاتھ پر دل کو پھرتا ہوں یارو
کوئی مول لیوے تو ہاں بیچتا ہوں
وہ کہتا ہے جی کوئی بیچے تو ہم لیں
تو کہتا ہوں لو ہاں میاں بیچتا ہوں
میں ایک اپنے یوسف کی خاطر عزیزو
یہ ہستی کا سب کارواں بیچتا ہوں
جو پورا خریدار پاؤں تو یارو
میں یہ سب زمین و زماں بیچتا ہوں
زمیں آسماں عرش و کرسی بھی کیا ہے
کوئی لے تو میں لا مکاں بیچتا ہوں
جسے مول لینا ہو لے لے خوشی سے
میں اس وقت دونوں جہاں بیچتا ہوں
بکی جنس خالی دکاں رہ گئی ہے
سو اب اس دکاں کو بھی ہاں بیچتا ہوں
محبت کے بازار میں اے نظیرؔ اب
میں عاجز غریب اپنی جاں بیچتا ہوں
غزل
نہ میں دل کو اب ہر مکاں بیچتا ہوں
نظیر اکبرآبادی