EN हिंदी
تیرے بھی منہ کی روشنی رات گئی تھی مہ سے مل | شیح شیری
tere bhi munh ki raushni raat gai thi mah se mil

غزل

تیرے بھی منہ کی روشنی رات گئی تھی مہ سے مل

نظیر اکبرآبادی

;

تیرے بھی منہ کی روشنی رات گئی تھی مہ سے مل
تاب سے تاب رخ سے رخ نور سے نور ظل سے ظل

یوسف مصر سے مگر ملتے ہیں سب ترے نشاں
زلف سے زلف لب سے لب چشم سے چشم تل سے تل

جتنے ہیں کشتگان عشق ان کے ازل سے ہیں ملے
اشک سے اشک نم سے نم خون سے خون گل سے گل

جب سے موا ہے کوہ کن کرتے ہیں اس کا غم سدا
کوہ سے کوہ جو سے جو سنگ سے سنگ سل سے سل

یار ملا جب اے نظیرؔ میرے گلے، تو مل گئے
جسم سے جسم جاں سے جاں روح سے روح دل سے دل