ہم تو مسجد سے بھی مایوس ہی آئے ناطقؔ
کوئی اللہ کا بندہ تو مسلماں ہوتا
ناطق گلاوٹھی
ہمارے عیب میں جس سے مدد ملے ہم کو
ہمیں ہے آج کل ایسے کسی ہنر کی تلاش
ناطق گلاوٹھی
ہمیں جو یاد ہے ہم تو اسی سے کام لیتے ہیں
کسی کا نام لینا ہو اسی کا نام لیتے ہیں
ناطق گلاوٹھی
ہمیں کم بخت احساس خودی اس در پہ لے بیٹھا
ہم اٹھ جاتے تو وہ پردہ بھی اٹھ جاتا جو حائل تھا
ناطق گلاوٹھی
ہچکیوں پر ہو رہا ہے زندگی کا راگ ختم
جھٹکے دے کر تار توڑے جا رہے ہیں ساز کے
ناطق گلاوٹھی
ہو گئی آوارہ گردی بے گھری کی پردہ دار
کام جتنا ہم کو آتا تھا وہ کام آ ہی گیا
ناطق گلاوٹھی
اک حرف شکایت پر کیوں روٹھ کے جاتے ہو
جانے دو گئے شکوے آ جاؤ میں باز آیا
ناطق گلاوٹھی