ہنس کے نہیں تو رو کے بھی عمر گزر ہی جائے گی
آج سے خیر یوں سہی مجھ کو خیال تھا کہ یوں
ناطق گلاوٹھی
ہاں جان تو دیں گے مگر اے موت ابھی دم لے
ایسا نہ کہیں وہ کہ ہم آئے تو چلے آپ
ناطق گلاوٹھی
ہاں یہ تو بتا اے دل محروم تمنا
اب بھی کوئی ہوتا ہے کہ ارماں نہیں ہوتا
ناطق گلاوٹھی
ہاتھ رہتے ہیں کئی دن سے گریباں کے قریب
بھول جا خود کو کہ ہے معرفت نفس یہی
ناطق گلاوٹھی
ہے مرض تو جو کچھ ہے تھی دوا تو جیسی تھی
چارہ ساز کو ہم نے ہاں گھٹا ہوا پایا
ناطق گلاوٹھی
ہم ہیں تو نہ رکھیں گے اتنا تجھے افسردہ
چل نغمۂ ناطقؔ سن صحرائے جنوں نے لا
ناطق گلاوٹھی
ہم پاؤں بھی پڑتے ہیں تو اللہ رے نخوت
ہوتا ہے یہ ارشاد کہ پڑتے ہیں گلے آپ
ناطق گلاوٹھی