کر مرتب کچھ نئے انداز سے اپنا بیاں
مرنے والے زندگی چاہے تو افسانے میں آ
ناطق گلاوٹھی
کشتی ہے گھاٹ پر تو چلے کیوں نہ دور آج
کل بس چلے چلے نہ چلے چل اٹھا تو لا
ناطق گلاوٹھی
کون اس رنگ سے جامہ سے ہوا تھا باہر
کس سے سیکھا تری تلوار نے عریاں ہونا
ناطق گلاوٹھی
کھا گئی اہل ہوس کی وضع اہل عشق کو
بات کس کی رہ گئی کوئی عدو سچا نہ ہم
ناطق گلاوٹھی
کھائیے یہ زہر کب تک کھائے جاتی ہے یہ زیست
اے اجل کب تک رہیں گے رہن آب و دانہ ہم
ناطق گلاوٹھی
ختم کرنا چاہتا ہوں پیچ و تاب زندگی
یاد گیسو زور بازو بن مرے شانے میں آ
ناطق گلاوٹھی
کھو دیا شہرت نے اپنی شعر خوانی کا مزا
داد مل جاتی ہے ناطقؔ ہر رطب یابس کے بعد
ناطق گلاوٹھی

