EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اب کہیں کس سے کہ ان سے بات کرنا ہے گناہ
جب کلام آیا زباں پر لا کلام آ ہی گیا

ناطق گلاوٹھی




اہل جنوں پہ ظلم ہے پابندیٔ رسوم
جادہ ہمارے واسطے کانٹا ہے راہ کا

ناطق گلاوٹھی




اے بادہ کش گئی ہے مئے عیش کس کے ساتھ
ہر اک نے لے کے جام کو آگے بڑھا دیا

ناطق گلاوٹھی




اے دل شکوہ سنج کیا گزری
کس لئے ہونٹ رہ گئے سل کے

ناطق گلاوٹھی




اے جنوں باعث بد حالیٔ صحرا کیا ہے
یہ مرا گھر تو نہیں تھا کہ جو ویراں ہوتا

ناطق گلاوٹھی




اے نگاہ مست اس کا نام ہے کیف سرور
آج تو نے دیکھ کر میری طرف دیکھا مجھے

ناطق گلاوٹھی




اے شب ہجراں زیادہ پاؤں پھیلاتی ہے کیوں
بھر گیا جتنا ہماری عمر کا پیمانہ تھا

ناطق گلاوٹھی