EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

شاہ بلوط کے اوپر دیکھ
چاند دھرا ہے تھالی پر

ناصر شہزاد




تجھ سے بچھڑے گاؤں چھوٹا شہر میں آ کر بسے
تج دیئے سب سنگی ساتھی تیاگ ڈالا دیس بھی

ناصر شہزاد




تجھ سے ملی نگاہ تو دیکھا کہ درمیاں
چاندی کے آبشار تھے سونے کی راہ تھی

ناصر شہزاد




تجھے پچھاڑ نہ دیں روشنی میں تیرے رفیق
دیا بجھے نہ بجھے تو بھی پھونک مار تو لے

ناصر شہزاد




عمروں کے بجھتے معمورے میں
میں نے ہر لمحہ تجھ کو سوچا

ناصر شہزاد




یاد آئے تو مجھ کو بہت جب شب کٹے جب پو پھٹے
جب وادیوں میں دور تک کہرا دکھے بے انت سا

ناصر شہزاد




دیکھا اسے تو آنکھ سے آنسو نکل پڑے
دریا اگرچہ خشک تھا پانی تہوں میں تھا

ناصر زیدی