زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا
سخن کدہ مری طرز سخن کو ترسے گا
نئے پیالے سہی تیرے دور میں ساقی
یہ دور میری شراب کہن کو ترسے گا
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا
انہی کے دم سے فروزاں ہیں ملتوں کے چراغ
زمانہ صحبت ارباب فن کو ترسے گا
بدل سکو تو بدل دو یہ باغباں ورنہ
یہ باغ سایۂ سرو و سمن کو ترسے گا
ہوائے ظلم یہی ہے تو دیکھنا اک دن
زمین پانی کو سورج کرن کو ترسے گا
غزل
زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا
ناصر کاظمی