وہ شاید ہم سے اب ترک تعلق کرنے والے ہیں
ہمارے دل پہ کچھ افسردگی سی چھائی جاتی ہے
مضطر خیرآبادی
یاد کرنا ہی ہم کو یاد رہا
بھول جانا بھی تم نہیں بھولے
مضطر خیرآبادی
یہاں سے جب گئی تھی تب اثر پر خار کھائے تھی
وہاں سے پھول برساتی ہوئی پلٹی دعا میری
مضطر خیرآبادی
یہی صورت وہاں تھی بے ضرورت بت کدہ چھوڑا
خدا کے گھر میں رکھا کیا ہے ناحق اتنی دور آئے
مضطر خیرآبادی
یہ نقشہ ہے کہ منہ تکنے لگا ہے مدعا میرا
یہ حالت ہے کہ صورت دیکھتا ہے مدعی میری
مضطر خیرآبادی
یہ پیدا ہوتے ہی رونا صریحاً بدشگونی ہے
مصیبت میں رہیں گے اور مصیبت لے کے اٹھیں گے
مضطر خیرآبادی
یہ تو ممکن نہیں محبت میں
آپ جو کچھ کہیں وہ ہم نہ کریں
مضطر خیرآبادی

