وہ کہتے ہیں کہ کیوں جی جس کو تم چاہو وہ کیوں اچھا
وہ اچھا کیوں ہے اور ہم جس کو چاہیں وہ برا کیوں ہے
مضطر خیرآبادی
وہ کہتے ہیں یہ ساری بے وفائی ہے محبت کی
نہ مضطرؔ بے وفا میں ہوں نہ مضطرؔ بے وفا تم ہو
مضطر خیرآبادی
وہ کریں گے وصل کا وعدہ وفا
رنگ گہرے ہیں ہماری شام کے
مضطر خیرآبادی
وہ مذاق عشق ہی کیا کہ جو ایک ہی طرف ہو
مری جاں مزا تو جب ہے کہ تجھے بھی کل نہ آئے
مضطر خیرآبادی
وہ پاس آنے نہ پائے کہ آئی موت کی نیند
نصیب سو گئے مصروف خواب کر کے مجھے
مضطر خیرآبادی
وہ پہلی سب وفائیں کیا ہوئیں اب یہ جفا کیسی
وہ پہلی سب ادائیں کیا ہوئیں اب یہ ادا کیوں ہے
مضطر خیرآبادی
وہ قدرت کے نمونے کیا ہوئے جو اس میں پہلے تھے
میں کعبہ کیا کروں مجھ سے یہ گھر دیکھا نہیں جاتا
مضطر خیرآبادی

