EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وہ کہتے ہیں کہ کیوں جی جس کو تم چاہو وہ کیوں اچھا
وہ اچھا کیوں ہے اور ہم جس کو چاہیں وہ برا کیوں ہے

مضطر خیرآبادی




وہ کہتے ہیں یہ ساری بے وفائی ہے محبت کی
نہ مضطرؔ بے وفا میں ہوں نہ مضطرؔ بے وفا تم ہو

مضطر خیرآبادی




وہ کریں گے وصل کا وعدہ وفا
رنگ گہرے ہیں ہماری شام کے

مضطر خیرآبادی




وہ مذاق عشق ہی کیا کہ جو ایک ہی طرف ہو
مری جاں مزا تو جب ہے کہ تجھے بھی کل نہ آئے

مضطر خیرآبادی




وہ پاس آنے نہ پائے کہ آئی موت کی نیند
نصیب سو گئے مصروف خواب کر کے مجھے

مضطر خیرآبادی




وہ پہلی سب وفائیں کیا ہوئیں اب یہ جفا کیسی
وہ پہلی سب ادائیں کیا ہوئیں اب یہ ادا کیوں ہے

مضطر خیرآبادی




وہ قدرت کے نمونے کیا ہوئے جو اس میں پہلے تھے
میں کعبہ کیا کروں مجھ سے یہ گھر دیکھا نہیں جاتا

مضطر خیرآبادی