تیری الجھی ہوئی باتوں سے مرا دل الجھا
تیرے بکھرے ہوئے بالوں نے پریشان کیا
مضطر خیرآبادی
ٹھہرنا دل میں کچھ بہتر نہ جانا
بھرے گھر کو انہوں نے گھر نہ جانا
مضطر خیرآبادی
تم اگر چاہو تو مٹی سے ابھی پیدا ہوں پھول
میں اگر مانگوں تو دریا بھی نہ دے پانی مجھے
مضطر خیرآبادی
تم کیوں شب جدائی پردے میں چھپ گئے ہو
قسمت کے اور تارے سب آسمان پر ہیں
مضطر خیرآبادی
تمہاری جلوہ گاہ ناز میں اندھیر ہی کب تھا
یہ موسیٰ دوڑ کر کس کو دکھانے شمع طور آئے
مضطر خیرآبادی
تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
مضطر خیرآبادی
تو نہ آئے گا تو ہو جائیں گی خوشیاں سب خاک
عید کا چاند بھی خالی کا مہینہ ہوگا
مضطر خیرآبادی

