EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تیری الجھی ہوئی باتوں سے مرا دل الجھا
تیرے بکھرے ہوئے بالوں نے پریشان کیا

مضطر خیرآبادی




ٹھہرنا دل میں کچھ بہتر نہ جانا
بھرے گھر کو انہوں نے گھر نہ جانا

مضطر خیرآبادی




تم اگر چاہو تو مٹی سے ابھی پیدا ہوں پھول
میں اگر مانگوں تو دریا بھی نہ دے پانی مجھے

مضطر خیرآبادی




تم کیوں شب جدائی پردے میں چھپ گئے ہو
قسمت کے اور تارے سب آسمان پر ہیں

مضطر خیرآبادی




تمہاری جلوہ گاہ ناز میں اندھیر ہی کب تھا
یہ موسیٰ دوڑ کر کس کو دکھانے شمع طور آئے

مضطر خیرآبادی




تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا

مضطر خیرآبادی




تو نہ آئے گا تو ہو جائیں گی خوشیاں سب خاک
عید کا چاند بھی خالی کا مہینہ ہوگا

مضطر خیرآبادی