EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کچھ نہ پوچھو کہ کیوں گیا کعبے
ان بتوں کو سلام کرنا تھا

مضطر خیرآبادی




کچھ تمہیں تو ایک دنیا میں نہیں
اور بھی ہیں سیکڑوں اس نام کے

مضطر خیرآبادی




کوچۂ یار سے یا رب نہ اٹھانا ہم کو
اس برے حال میں بھی ہم تو یہیں اچھے ہیں

مضطر خیرآبادی




کیا اثر خاک تھا مجنوں کے پھٹے کپڑوں میں
ایک ٹکڑا بھی تو لیلیٰ کا گریباں نہ ہوا

مضطر خیرآبادی




لڑائی ہے تو اچھا رات بھر یوں ہی بسر کر لو
ہم اپنا منہ ادھر کر لیں تم اپنا منہ ادھر کر لو

مضطر خیرآبادی




لطف قربت ہے مے پرستی میں
میں خدا دیکھتا ہوں مستی میں

مضطر خیرآبادی




مدہوش ہی رہا میں جہان خراب میں
گوندھی گئی تھی کیا مری مٹی شراب میں

مضطر خیرآبادی