محبت بت کدے میں چل کے اس کا فیصلہ کر دے
خدا میرا خدا ہے یا یہ مورت ہے خدا میری
مضطر خیرآبادی
محبت کا اثر پھر دیکھنا مرنے تو دو مجھ کو
وہ میرے ساتھ زندہ دفن ہو جائیں عجب کیا ہے
مضطر خیرآبادی
محبت میں کسی نے سر پٹکنے کا سبب پوچھا
تو کہہ دوں گا کہ اپنی مشکلیں آسان کرتا ہوں
مضطر خیرآبادی
محبت قدرداں ہوتی تو پھر کاہے کا رونا تھا
ہمیں بھی تم سمجھتے تم کو جیسا ہم سمجھتے ہیں
مضطر خیرآبادی
نہ رو اتنا پرائے واسطے اے دیدۂ گریاں
کسی کا کچھ نہیں جاتا تری بینائی جاتی ہے
مضطر خیرآبادی
نہ اس کے دامن سے میں ہی الجھا نہ میرے دامن سے یہ ہی اٹکی
ہوا سے میرا بگاڑ کیا ہے جو شمع تربت بجھا رہی ہے
مضطر خیرآبادی
نہیں ہوں میں تو تری بندگی کے کیا معنی
نہیں ہے تو تو خدا کون ہے زمانے کا
مضطر خیرآبادی

