EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

خط پھاڑ کے پھینکا ہے تو لکھا بھی مٹا دو
کاغذ پہ اترتا ہے بہت تاؤ تمہارا

مضطر خیرآبادی




خدمت گشت بگولوں کو تو دی صحرا میں
میں بھی برباد ہوں مجھ کو بھی کوئی کام بتا

مضطر خیرآبادی




خضر بھی آپ پر عاشق ہوئے ہیں
قضا آئی حیات جاوداں کی

مضطر خیرآبادی




خدا بھی جب نہ ہو معلوم تب جانو مٹی ہستی
فنا کا کیا مزا جب تک خدا معلوم ہوتا ہے

مضطر خیرآبادی




خوب اس دل پہ تری آنکھ نے ڈورے ڈالے
خوب کاجل نے تری آنکھ میں ڈورا کھینچا

مضطر خیرآبادی




خواہش دید پہ انکار سے آتے ہیں مزے
ایسے موقعے پہ تو پردہ بھی مزا دیتا ہے

مضطر خیرآبادی




کسی کا جلوۂ رنگیں یہ کہتا ہے انہیں پوجو
یہ اس پتھر کے بت ہیں جس پہ پستی تھی حنا میری

مضطر خیرآبادی