خط پھاڑ کے پھینکا ہے تو لکھا بھی مٹا دو
کاغذ پہ اترتا ہے بہت تاؤ تمہارا
مضطر خیرآبادی
خدمت گشت بگولوں کو تو دی صحرا میں
میں بھی برباد ہوں مجھ کو بھی کوئی کام بتا
مضطر خیرآبادی
خضر بھی آپ پر عاشق ہوئے ہیں
قضا آئی حیات جاوداں کی
مضطر خیرآبادی
خدا بھی جب نہ ہو معلوم تب جانو مٹی ہستی
فنا کا کیا مزا جب تک خدا معلوم ہوتا ہے
مضطر خیرآبادی
خوب اس دل پہ تری آنکھ نے ڈورے ڈالے
خوب کاجل نے تری آنکھ میں ڈورا کھینچا
مضطر خیرآبادی
خواہش دید پہ انکار سے آتے ہیں مزے
ایسے موقعے پہ تو پردہ بھی مزا دیتا ہے
مضطر خیرآبادی
کسی کا جلوۂ رنگیں یہ کہتا ہے انہیں پوجو
یہ اس پتھر کے بت ہیں جس پہ پستی تھی حنا میری
مضطر خیرآبادی

