میرے غبار کی یہ تعلی تو دیکھیے
اتنا بڑھا کہ عرش معلی سے مل گیا
مضطر خیرآبادی
میری ارمان بھری آنکھ کی تاثیر ہے یہ
جس کو میں پیار سے دیکھوں گا وہی تو ہوگا
مضطر خیرآبادی
میری ہستی سے تو اچھی ہیں ہوائیں یا رب
کہ جو آزاد پھرا کرتی ہیں میدانوں میں
مضطر خیرآبادی
مرا رونا ہنسی ٹھٹھا نہیں ہے
ذرا روکے رہو اپنی ہنسی تم
مضطر خیرآبادی
مرے دل نے جھٹکے اٹھائے ہیں کتنے یہ تم اپنی زلفوں کے بالوں سے پوچھو
کلیجے کی چوٹوں کو میں کیا بتاؤں یہ چھاتی پہ لہرانے والوں سے پوچھو
مضطر خیرآبادی
مرے ان کے تعلق پر کوئی اب کچھ نہیں کہتا
خدا کا شکر سب کے منہ میں تالے پڑتے جاتے ہیں
مضطر خیرآبادی
میان حشر یہ کافر بڑے اترائے پھرتے ہیں
مزا آ جائے ایسے میں اگر سن لے خدا میری
مضطر خیرآبادی

