EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

میرے غبار کی یہ تعلی تو دیکھیے
اتنا بڑھا کہ عرش معلی سے مل گیا

مضطر خیرآبادی




میری ارمان بھری آنکھ کی تاثیر ہے یہ
جس کو میں پیار سے دیکھوں گا وہی تو ہوگا

مضطر خیرآبادی




میری ہستی سے تو اچھی ہیں ہوائیں یا رب
کہ جو آزاد پھرا کرتی ہیں میدانوں میں

مضطر خیرآبادی




مرا رونا ہنسی ٹھٹھا نہیں ہے
ذرا روکے رہو اپنی ہنسی تم

مضطر خیرآبادی




مرے دل نے جھٹکے اٹھائے ہیں کتنے یہ تم اپنی زلفوں کے بالوں سے پوچھو
کلیجے کی چوٹوں کو میں کیا بتاؤں یہ چھاتی پہ لہرانے والوں سے پوچھو

مضطر خیرآبادی




مرے ان کے تعلق پر کوئی اب کچھ نہیں کہتا
خدا کا شکر سب کے منہ میں تالے پڑتے جاتے ہیں

مضطر خیرآبادی




میان حشر یہ کافر بڑے اترائے پھرتے ہیں
مزا آ جائے ایسے میں اگر سن لے خدا میری

مضطر خیرآبادی