جب ان کی پتیاں بکھریں تو سمجھے مصلحت اس کی
یہ گل پہلے سمجھتے تھے ہوا بے کار چلتی ہے
مضطر خیرآبادی
جگانے چٹکیاں لینے ستانے کون آتا ہے
یہ چھپ کر خواب میں اللہ جانے کون آتا ہے
مضطر خیرآبادی
جلے گا دل تمہیں بزم عدو میں دیکھ کر میرا
دھواں بن بن کے ارماں محفل دشمن سے نکلیں گے
مضطر خیرآبادی
جلوۂ رخسار ساقی ساغر و مینا میں ہے
چاند اوپر ہے مگر ڈوبا ہوا دریا میں ہے
مضطر خیرآبادی
جناب خضر راہ عشق میں لڑنے سے کیا حاصل
میں اپنا راستہ لے لوں تم اپنا راستہ لے لو
مضطر خیرآبادی
جتنے بت ہیں میں سب پہ مرتا ہوں
میرا ایمان ایک ہو تو کہوں
مضطر خیرآبادی
جیے جاتے ہیں پستی میں ترے سارے جہاں والے
کبھی نیچے بھی نظریں ڈال اونچے آسماں والے
مضطر خیرآبادی

