ان بتوں کی ہی محبت سے خدا ملتا ہے
کافروں کو جو نہ چاہے وہ مسلمان نہیں
مضطر خیرآبادی
اس سے پہلے میں کبھی آباد گھر بستی میں تھا
آج مضطرؔ ایک اجڑا جھونپڑا جنگل میں ہوں
مضطر خیرآبادی
عشق کا کانٹا ہمارے دل میں یہ کہہ کر چبھا
اب نکلواؤ تو تم ان سے نکلوانا مجھے
مضطر خیرآبادی
اسی کو پی کے ہوتی ہے شفا بیمار الفت کو
دوا قاتل ترے تلوار کے پانی کو کہتے ہیں
مضطر خیرآبادی
جا کے اب نار جہنم کی خبر لے زاہد
ندیاں بہہ گئیں اشکوں کی گنہ گاروں میں
مضطر خیرآبادی
جان دینا نہیں کسے منظور
تو کسی کام سے تو آئے گا
مضطر خیرآبادی
جب میں نے کہا دل مرا پامال کیا کیوں
کس ناز سے بولے کہ محبت کی سزا تھی
مضطر خیرآبادی

