EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ان بتوں کی ہی محبت سے خدا ملتا ہے
کافروں کو جو نہ چاہے وہ مسلمان نہیں

مضطر خیرآبادی




اس سے پہلے میں کبھی آباد گھر بستی میں تھا
آج مضطرؔ ایک اجڑا جھونپڑا جنگل میں ہوں

مضطر خیرآبادی




عشق کا کانٹا ہمارے دل میں یہ کہہ کر چبھا
اب نکلواؤ تو تم ان سے نکلوانا مجھے

مضطر خیرآبادی




اسی کو پی کے ہوتی ہے شفا بیمار الفت کو
دوا قاتل ترے تلوار کے پانی کو کہتے ہیں

مضطر خیرآبادی




جا کے اب نار جہنم کی خبر لے زاہد
ندیاں بہہ گئیں اشکوں کی گنہ گاروں میں

مضطر خیرآبادی




جان دینا نہیں کسے منظور
تو کسی کام سے تو آئے گا

مضطر خیرآبادی




جب میں نے کہا دل مرا پامال کیا کیوں
کس ناز سے بولے کہ محبت کی سزا تھی

مضطر خیرآبادی