ہمارے ایک دل کو ان کی دو زلفوں نے گھیرا ہے
یہ کہتی ہے کہ میرا ہے وہ کہتی ہے کہ میرا ہے
مضطر خیرآبادی
ہمارے میکدے میں خیر سے ہر چیز رہتی ہے
مگر اک تیس دن کے واسطے روزے نہیں رہتے
مضطر خیرآبادی
حسینوں پر نہیں مرتا میں اس حسرت میں مرتا ہوں
کہ ایسے ایسے لوگوں کے لیے ظالم قضا کیوں ہے
مضطر خیرآبادی
حسرتوں کو کوئی کہاں رکھے
دل کے اندر قیام ہے تیرا
مضطر خیرآبادی
ہستئ غیر کا سجدہ ہے محبت میں گناہ
آپ ہی اپنی پرستش کے سزا وار ہیں ہم
مضطر خیرآبادی
ہزاروں حسن والے اس زمیں میں دفن ہیں مضطرؔ
قیامت ہوگی جب یہ سب کے سب مدفن سے نکلیں گے
مضطر خیرآبادی
ایمان ساتھ جائے گا کیوں کر خدا کے گھر
کعبے کا راستہ تو کلیسا سے مل گیا
مضطر خیرآبادی

