EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

عدو کو چھوڑ دو پھر جان بھی مانگو تو حاضر ہے
تم ایسا کر نہیں سکتے تو ایسا ہو نہیں سکتا

مضطر خیرآبادی




اگر تقدیر سیدھی ہے تو خود ہو جاؤ گے سیدھے
خفا بیٹھے رہو تم کو منانے کون آتا ہے

مضطر خیرآبادی




احباب و اقارب کے برتاؤ کوئی دیکھے
اول تو مجھے گاڑھا اوپر سے دباتے ہیں

مضطر خیرآبادی




اے بتو رنج کے ساتھی ہو نہ آرام کے تم
کام ہی جب نہیں آتے ہو تو کس کام کے تم

مضطر خیرآبادی




اے حنا رنگ محبت تو ہے مجھ میں بھی نہاں
تیرے دھوکے میں کوئی پیس نہ ڈالے مجھ کو

مضطر خیرآبادی




اے عشق کہیں لے چل یہ دیر و حرم چھوٹیں
ان دونوں مکانوں میں جھگڑا نظر آتا ہے

مضطر خیرآبادی




اے خدا دنیا پہ اب قبضہ بتوں کا چاہیے
ایک گھر تیرے لیے ان سب نے خالی کر دیا

مضطر خیرآبادی