عدو کو چھوڑ دو پھر جان بھی مانگو تو حاضر ہے
تم ایسا کر نہیں سکتے تو ایسا ہو نہیں سکتا
مضطر خیرآبادی
اگر تقدیر سیدھی ہے تو خود ہو جاؤ گے سیدھے
خفا بیٹھے رہو تم کو منانے کون آتا ہے
مضطر خیرآبادی
احباب و اقارب کے برتاؤ کوئی دیکھے
اول تو مجھے گاڑھا اوپر سے دباتے ہیں
مضطر خیرآبادی
اے بتو رنج کے ساتھی ہو نہ آرام کے تم
کام ہی جب نہیں آتے ہو تو کس کام کے تم
مضطر خیرآبادی
اے حنا رنگ محبت تو ہے مجھ میں بھی نہاں
تیرے دھوکے میں کوئی پیس نہ ڈالے مجھ کو
مضطر خیرآبادی
اے عشق کہیں لے چل یہ دیر و حرم چھوٹیں
ان دونوں مکانوں میں جھگڑا نظر آتا ہے
مضطر خیرآبادی
اے خدا دنیا پہ اب قبضہ بتوں کا چاہیے
ایک گھر تیرے لیے ان سب نے خالی کر دیا
مضطر خیرآبادی

