اپنے دل کو تری آنکھوں پہ فدا کرتا ہوں
آج بیمار پہ بیمار کی قربانی ہے
مضطر خیرآبادی
اپنی محفل میں رقیبوں کو بلایا اس نے
ان میں بھی خاص انہیں جن کی ضرورت دیکھی
مضطر خیرآبادی
اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے
مضطر خیرآبادی
باقی کی محبت میں دل صاف ہوا اتنا
جب سر کو جھکاتا ہوں شیشہ نظر آتا ہے
مضطر خیرآبادی
بازو پہ رکھ کے سر جو وہ کل رات سو گیا
آرام یہ ملا کہ مرا ہات سو گیا
مضطر خیرآبادی
بچھڑنا بھی تمہارا جیتے جی کی موت ہے گویا
اسے کیا خاک لطف زندگی جس سے جدا تم ہو
مضطر خیرآبادی
برا ہوں میں جو کسی کی برائیوں میں نہیں
بھلے ہو تم جو کسی کا بھلا نہیں کرتے
مضطر خیرآبادی

