EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اپنے دل کو تری آنکھوں پہ فدا کرتا ہوں
آج بیمار پہ بیمار کی قربانی ہے

مضطر خیرآبادی




اپنی محفل میں رقیبوں کو بلایا اس نے
ان میں بھی خاص انہیں جن کی ضرورت دیکھی

مضطر خیرآبادی




اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے

مضطر خیرآبادی




باقی کی محبت میں دل صاف ہوا اتنا
جب سر کو جھکاتا ہوں شیشہ نظر آتا ہے

مضطر خیرآبادی




بازو پہ رکھ کے سر جو وہ کل رات سو گیا
آرام یہ ملا کہ مرا ہات سو گیا

مضطر خیرآبادی




بچھڑنا بھی تمہارا جیتے جی کی موت ہے گویا
اسے کیا خاک لطف زندگی جس سے جدا تم ہو

مضطر خیرآبادی




برا ہوں میں جو کسی کی برائیوں میں نہیں
بھلے ہو تم جو کسی کا بھلا نہیں کرتے

مضطر خیرآبادی