دم خواب راحت بلایا انہوں نے تو درد نہاں کی کہانی کہوں گا
مرا حال لکھنے کے قابل نہیں ہے اگر مل گئے تو زبانی کہوں گا
مضطر خیرآبادی
دیکھ کر کعبے کو خالی میں یہ کہہ کر آ گیا
ایسے گھر کو کیا کروں گا جس کے اندر تو نہیں
مضطر خیرآبادی
دھوکے سے بلا کر جو ملا تھا تو وہ مجھ سے
جب ملتے ہیں کہتے ہیں دغاباز کہیں کا
مضطر خیرآبادی
دل کام کا نہیں تو نہ لو جان نذر ہے
اتنی ذرا سی بات پہ جھگڑا نہ چاہئے
مضطر خیرآبادی
دل کو میں اپنے پاس کیوں رکھوں
تو ہی لے جا اگر یہ تیرا ہے
مضطر خیرآبادی
دل کیا کرے جو راز محبت کا کھل گیا
میں کیا کروں کہ عشق ہی اک نامور سے ہے
مضطر خیرآبادی
دل ان کو مفت دینے میں دشمن کو رشک کیوں
ہم اپنا مال دیتے ہیں اس میں کسی کا کیا
مضطر خیرآبادی

