EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دم خواب راحت بلایا انہوں نے تو درد نہاں کی کہانی کہوں گا
مرا حال لکھنے کے قابل نہیں ہے اگر مل گئے تو زبانی کہوں گا

مضطر خیرآبادی




دیکھ کر کعبے کو خالی میں یہ کہہ کر آ گیا
ایسے گھر کو کیا کروں گا جس کے اندر تو نہیں

مضطر خیرآبادی




دھوکے سے بلا کر جو ملا تھا تو وہ مجھ سے
جب ملتے ہیں کہتے ہیں دغاباز کہیں کا

مضطر خیرآبادی




دل کام کا نہیں تو نہ لو جان نذر ہے
اتنی ذرا سی بات پہ جھگڑا نہ چاہئے

مضطر خیرآبادی




دل کو میں اپنے پاس کیوں رکھوں
تو ہی لے جا اگر یہ تیرا ہے

مضطر خیرآبادی




دل کیا کرے جو راز محبت کا کھل گیا
میں کیا کروں کہ عشق ہی اک نامور سے ہے

مضطر خیرآبادی




دل ان کو مفت دینے میں دشمن کو رشک کیوں
ہم اپنا مال دیتے ہیں اس میں کسی کا کیا

مضطر خیرآبادی