EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اک ٹھیس بھی ہلکی سی پتھر سے گراں تر ہے
نازک ہے یہ دل اتنا شیشے کا ہو گھر جیسے

مضطر حیدری




جھکی جھکی جو ہے کڑوی کسیلی نیم کی شاخ
اسی پہ شہد کا چھتہ دکھائی دیتا ہے

مضطر حیدری




کل رات مرے دل نے پھر چپکے سے پوچھا ہے
مضطرؔ تری آہوں میں آئے گا اثر کب تک

مضطر حیدری




خلوص ہو تو کہیں بندگی کی قید نہیں
صنم کدے میں طواف حرم بھی ممکن ہے

مضطر حیدری




کوئی بھی شکل مکمل کتاب بن نہ سکی
ہر ایک چہرہ یہاں اقتباس جیسا ہے

مضطر حیدری




محفل میں ان کی کھل گیا دل کا معاملہ
پلکوں پہ اشک رہ گئے پینے کے بعد بھی

مضطر حیدری




سنگریزوں کو حقارت سے نہ ٹھکرائیے آپ
خاک کے ذرے بھی سینے میں شرر رکھتے ہیں

مضطر حیدری