EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بت کدہ میں تو تجھے دیکھ لیا کرتا تھا
خاص کعبے میں تو صورت بھی دکھائی نہ گئی

مضطر خیرآبادی




بت خانے میں کیا یاد الٰہی نہیں ممکن
ناقوس سے کیا کار اذاں ہو نہیں سکتا

مضطر خیرآبادی




بتوں میں نور ذات کبریا معلوم ہوتا ہے
مجھے کچھ دن سے ہر پتھر خدا معلوم ہوتا ہے

مضطر خیرآبادی




چاہت کی تمنا سے کوئی آنچ نہ آئی
یہ آگ مرے دل میں بڑے ڈھب سے لگی ہے

مضطر خیرآبادی




چوکی نظر جو زاہد خانہ خراب کی
توبہ اڑا کے لے گئی بوتل شراب کی

مضطر خیرآبادی




دم دے دیا ہے کس رخ روشن کی یاد میں
مرنے کے بعد بھی مرے چہرے پہ نور تھا

مضطر خیرآبادی




دم نکل جائے گا رخصت کا ابھی نام نہ لو
تم جو اٹھے تو بٹھا دوں گا عزاداروں میں

مضطر خیرآبادی