بت کدہ میں تو تجھے دیکھ لیا کرتا تھا
خاص کعبے میں تو صورت بھی دکھائی نہ گئی
مضطر خیرآبادی
بت خانے میں کیا یاد الٰہی نہیں ممکن
ناقوس سے کیا کار اذاں ہو نہیں سکتا
مضطر خیرآبادی
بتوں میں نور ذات کبریا معلوم ہوتا ہے
مجھے کچھ دن سے ہر پتھر خدا معلوم ہوتا ہے
مضطر خیرآبادی
چاہت کی تمنا سے کوئی آنچ نہ آئی
یہ آگ مرے دل میں بڑے ڈھب سے لگی ہے
مضطر خیرآبادی
چوکی نظر جو زاہد خانہ خراب کی
توبہ اڑا کے لے گئی بوتل شراب کی
مضطر خیرآبادی
دم دے دیا ہے کس رخ روشن کی یاد میں
مرنے کے بعد بھی مرے چہرے پہ نور تھا
مضطر خیرآبادی
دم نکل جائے گا رخصت کا ابھی نام نہ لو
تم جو اٹھے تو بٹھا دوں گا عزاداروں میں
مضطر خیرآبادی

