EN हिंदी
اب کے برسات کی رت اور بھی بھڑکیلی ہے | شیح شیری
ab ke barsat ki rut aur bhi bhaDkili hai

غزل

اب کے برسات کی رت اور بھی بھڑکیلی ہے

مظفر وارثی

;

اب کے برسات کی رت اور بھی بھڑکیلی ہے
جسم سے آگ نکلتی ہے قبا گیلی ہے

سوچتا ہوں کہ اب انجام سفر کیا ہوگا
لوگ بھی کانچ کے ہیں راہ بھی پتھریلی ہے

شدت کرب میں ہنسنا تو ہنر ہے میرا
ہاتھ ہی سخت ہیں زنجیر کہاں ڈھیلی ہے

گرد آنکھوں میں سہی داغ تو چہرے پہ نہیں
لفظ دھندلے ہیں مگر فکر تو چمکیلی ہے

گھول دیتا ہے سماعت میں وہ میٹھا لہجہ
کس کو معلوم کہ یہ قند بھی زہریلی ہے

پہلے رگ رگ سے مری خون نچوڑا اس نے
اب یہ کہتا ہے کہ رنگت ہی مری پیلی ہے

مجھ کو بے رنگ ہی کر دیں نہ کہیں رنگ اتنے
سبز موسم ہے ہوا سرخ فضا نیلی ہے

میری پرواز کسی کو نہیں بھاتی تو نہ بھائے
کیا کروں ذہن مظفرؔ مرا جبریلی ہے