روکتا ہے غم اظہار سے پندار مجھے
میرے اشکوں سے چھپا لے مرے رخسار مجھے
دیکھ اے دشت جنوں بھید نہ کھلنے پائے
ڈھونڈنے آئے ہیں گھر کے در و دیوار مجھے
سی دیے ہونٹ اسی شخص کی مجبوری نے
جس کی قربت نے کیا محرم اسرار مجھے
میری آنکھوں کی طرف دیکھ رہے ہیں انجم
جیسے پہچان گئی روح شب تار مجھے
جنس ویرانی صحرا میری دوکان میں ہے
کیا خریدے گا ترے شہر کا بازار مجھے
جرس گل نے کئی بار پکارا لیکن
لے گئی راہ سے زنجیر کی جھنکار مجھے
ناوک ظلم اٹھا دشنۂ اندوہ سنبھال
لطف کے خنجر بے نام سے مت مار مجھے
ساری دنیا میں گھنی رات کا سناٹا تھا
صحن زنداں میں ملے صبح کے آثار مجھے
غزل
روکتا ہے غم اظہار سے پندار مجھے
مصطفی زیدی