مجسم داغ حسرت ہوں سراپا نقش عبرت کا
مجھے دیکھو کہ ہوتا ہے یہی انجام الفت کا
انہیں شوق دل آزاری ہمیں ذوق وفاداری
خدا حافظ ہے اب اپنے کشور کار الفت کا
وصال یار کی اے دل کوئی پر زور کوشش کر
ہوائے آہ سے پردہ اٹھا دے شام فرقت کا
دل پر شوق نے ڈالا ہے مجھ کو کس کشاکش میں
ادھر ہے حد کی بے صبری ادھر وعدہ قیامت کا
تم ایسے بے خبر بھی شاذ ہوں گے اس زمانے میں
کہ دل میں رہ کے اندازہ نہیں ہے دل کی حالت کا
جہاں میں چار دن رہ کر فقط بوئے وفا دینا
گلوں سے میں سبق لیتا ہوں آئین صحبت کا
لگا رکھتا ہے اس کی نذر کو چشم تمنا نے
وہ اک آنسو کہ مجموعہ ہے ساری دل کی طاقت کا
مری قدرت سے اب اخفائے راز عشق باہر ہے
کہ رنگ آنے لگا ہے آنسوؤں میں خون حسرت کا
اک آہ سرد بھر لیتا ہوں جب تم یاد آتے ہو
خلاصہ کس قدر میں نے کیا ہے رنج فرقت کا
وہ دل ہے بزم عالم میں نظرؔ اک ساز بشکستہ
نہ چھیڑے تار ہستی پر جو نغمہ اس کی قدرت کا
غزل
مجسم داغ حسرت ہوں سراپا نقش عبرت کا
منشی نوبت رائے نظر لکھنوی