جب کبھی کسی گل پر اک ذرا نکھار آیا
کم نگاہ یہ سمجھے موسم بہار آیا
حسن و عشق دونوں تھے بے کراں و بے پایاں
دل وہاں بھی کچھ لمحے جانے کب گزار آیا
اس افق کو کیا کہیے نور بھی دھندلکا بھی
بارہا کرن پھوٹی بارہا غبار آیا
ہم نے غم کے ماروں کی محفلیں بھی دیکھیں ہیں
ایک غم گسار اٹھا ایک غم گسار آیا
آرزوئے ساحل سے ہم کنارا کیا کرتے
جس طرف قدم اٹھے بحر بے کنار آیا
یوں تو سیکڑوں غم تھے پر غم جہاں جذبیؔ
بعد ایک مدت کے دل کو سازگار آیا

غزل
جب کبھی کسی گل پر اک ذرا نکھار آیا
معین احسن جذبی