کہاں ملے گی مثال میری ستم گری کی
کہ میں گلابوں کے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں
محسن نقوی
کل تھکے ہارے پرندوں نے نصیحت کی مجھے
شام ڈھل جائے تو محسنؔ تم بھی گھر جایا کرو
محسن نقوی
کتنے لہجوں کے غلافوں میں چھپاؤں تجھ کو
شہر والے مرا موضوع سخن جانتے ہیں
محسن نقوی
کیوں ترے درد کو دیں تہمت ویرانیٔ دل
زلزلوں میں تو بھرے شہر اجڑ جاتے ہیں
محسن نقوی
لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی
محسن نقوی
موسم زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسے
ایسی رت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں
محسن نقوی
پلٹ کے آ گئی خیمے کی سمت پیاس مری
پھٹے ہوئے تھے سبھی بادلوں کے مشکیزے
محسن نقوی

