EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کہاں ملے گی مثال میری ستم گری کی
کہ میں گلابوں کے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں

محسن نقوی




کل تھکے ہارے پرندوں نے نصیحت کی مجھے
شام ڈھل جائے تو محسنؔ تم بھی گھر جایا کرو

محسن نقوی




کتنے لہجوں کے غلافوں میں چھپاؤں تجھ کو
شہر والے مرا موضوع سخن جانتے ہیں

محسن نقوی




کیوں ترے درد کو دیں تہمت ویرانیٔ دل
زلزلوں میں تو بھرے شہر اجڑ جاتے ہیں

محسن نقوی




لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی

محسن نقوی




موسم زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسے
ایسی رت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں

محسن نقوی




پلٹ کے آ گئی خیمے کی سمت پیاس مری
پھٹے ہوئے تھے سبھی بادلوں کے مشکیزے

محسن نقوی