ولولے جتنے سفر کے تھے سفر اتنے نہ تھے
دور تھے روشن نگر ہم سے مگر اتنے نہ تھے
بند آنکھیں جب کھلیں تو روشنی پہچان لی
بے خبر ہم ہوں تو ہوں پر بے بصر اتنے نہ تھے
مصلحت کے ہاتھ اب اپنی انا بھی بک گئی
بے سر و ساماں تھے پہلے بھی مگر اتنے نہ تھے
مستحق آنکھیں مری جانب اٹھی تھیں جس قدر
دکھ تو یہ ہے میری شاخوں پر ثمر اتنے نہ تھے
سطح چہرہ پر بھی پہلے ایک ٹھہراؤ سا تھا
دل کی گہرائی میں بھی محسنؔ بھنور اتنے نہ تھے

غزل
ولولے جتنے سفر کے تھے سفر اتنے نہ تھے
محسن شیخ