آگہی کب یہاں پلکوں پہ سہی جاتی ہے
بات یہ شدت گریہ سے کہی جاتی ہے
ہم اسے انفس و آفاق سے رکھتے ہیں پرے
شام کوئی جو ترے غم سے تہی جاتی ہے
اک ذرا ٹھہر ابھی مہلت بے نام و نشاں
درمیاں بات کوئی ہم سے رہی جاتی ہے
گرمیٔ شوق سے پگھلی ترے دیدار کی لو
تیز ہو کر مری آنکھوں سے بہی جاتی ہے
شاخ نازک سے دم تیز ہوائے فرقت
ناتوانی کہاں پتوں کی سہی جاتی ہے
حرف انکار لکھا جس پہ ہوا نے کل تک
رہ گزر دل کی طرف آج وہی جاتی ہے
جائے جاتی نہیں ظلمت مگر اکثر محسنؔ
اک دیا اس کی طرف ہو تو یہی جاتی ہے

غزل
آگہی کب یہاں پلکوں پہ سہی جاتی ہے
محسن شکیل