دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو
ہجر والوں نے لیا رخت سفر سناٹا
محسن نقوی
گہری خموش جھیل کے پانی کو یوں نہ چھیڑ
چھینٹے اڑے تو تیری قبا پر بھی آئیں گے
محسن نقوی
ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں
ہماری خاطر کوئی ستارہ نہیں چلے گا
محسن نقوی
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
محسن نقوی
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
محسن نقوی
جن اشکوں کی پھیکی لو کو ہم بے کار سمجھتے تھے
ان اشکوں سے کتنا روشن اک تاریک مکان ہوا
محسن نقوی
جو دے سکا نہ پہاڑوں کو برف کی چادر
وہ میری بانجھ زمیں کو کپاس کیا دے گا
محسن نقوی

