EN हिंदी
فضا کا حبس شگوفوں کو باس کیا دے گا | شیح شیری
faza ka habs shagufon ko bas kya dega

غزل

فضا کا حبس شگوفوں کو باس کیا دے گا

محسن نقوی

;

فضا کا حبس شگوفوں کو باس کیا دے گا
بدن دریدہ کسی کو لباس کیا دے گا

یہ دل کہ قحط انا سے غریب ٹھہرا ہے
مری زباں کو زر التماس کیا دے گا

جو دے سکا نہ پہاڑوں کو برف کی چادر
وہ میری بانجھ زمیں کو کپاس کیا دے گا

یہ شہر یوں بھی تو دہشت بھرا نگر ہے یہاں
دلوں کا شور ہوا کو ہراس کیا دے گا

وہ زخم دے کے مجھے حوصلہ بھی دیتا ہے
اب اس سے بڑھ کے طبیعت شناس کیا دے گا

جو اپنی ذات سے باہر نہ آ سکا اب تک
وہ پتھروں کو متاع حواس کیا دے گا

وہ میرے اشک بجھائے گا کس طرح محسنؔ
سمندروں کو وہ صحرا کی پیاس کیا دے گا