EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

زندگی پھیلی ہوئی تھی شام ہجراں کی طرح
کس کو اتنا حوصلہ تھا کون جی کر دیکھتا

احمد فراز




زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے

احمد فراز




زندگی تیری عطا تھی سو ترے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی ترا احساں جاناں

احمد فراز




اپنا سایہ تو میں دریا میں بہا آیا تھا
کون پھر بھاگ رہا ہے مرے پیچھے پیچھے

احمد فرید




سامنے پھر مرے اپنے ہیں سو میں جانتا ہوں
جیت بھی جاؤں تو یہ جنگ میں ہارا ہوا ہوں

احمد فرید




سب پہ کھلنے کی ہمیں ہی آرزو شاید نہ تھی
ایک دو ہوں گے کہ ہم جن پر فقیرانہ کھلے

احمد فرید




زخم گنتا ہوں شب ہجر میں اور سوچتا ہوں
میں تو اپنا بھی نہ تھا کیسے تمہارا ہوا ہوں

احمد فرید