پردۂ محمل اٹھے تو راز ویرانہ کھلے
راز ویرانہ کھلے تب جا کے دیوانہ کھلے
بار ہفت افلاک بھی اس ناتواں شانے پہ ہے
زلف سے کہنا کہ آہستہ سر شانہ کھلے
قامت پروانہ قد شمع سے کم ہے ابھی
کیمیا ہو لے ذرا تو قد پروانہ کھلے
جب طلسم آئینہ خود ہو نقاب آئینہ
چشم پر کیسے حجاب آئینہ خانہ کھلے
اس قدر مے اس کے پیمانے میں آتی جائے گی
جس قدر بھی جس پہ تہہ داریٔ پیمانہ کھلے
عاجزی و استواری مستی و وارفتگی
کس پہ اب جز شمع بیتابئ پروانہ کھلے
سب پہ کھلنے کی ہمیں ہی آرزو شاید نہ تھی
ایک دو ہوں گے کہ ہم جن پر فقیرانہ کھلے
غزل
پردۂ محمل اٹھے تو راز ویرانہ کھلے
احمد فرید