جب سے اک چاند کی چاہت میں ستارا ہوا ہوں
شہر شب زاد کی آنکھوں کا سہارا ہوا ہوں
اے مرے درد کے دریا کی روانی مجھے دیکھ
میں ترے قرب سے کٹ کٹ کے کنارہ ہوا ہوں
زندگی! تجھ سا منافق بھی کوئی کیا ہوگا
تیرا شہکار ہوں اور تیرا ہی مارا ہوا ہوں
بجھ گئے جب مرے سب خواب و چراغ و مہتاب
شہر ظلمت کو میں تب جا کے گوارا ہوا ہوں
سامنے پھر مرے اپنے ہیں سو میں جانتا ہوں
جیت بھی جاؤں تو یہ جنگ میں ہارا ہوا ہوں
زخم گنتا ہوں شب ہجر میں اور سوچتا ہوں
میں تو اپنا بھی نہ تھا کیسے تمہارا ہوا ہوں
میں پیمبر ہوں نہ ہو سکتا ہوں پھر بھی احمدؔ
ایسا لگتا ہے سر خاک اتارا ہوا ہوں
غزل
جب سے اک چاند کی چاہت میں ستارا ہوا ہوں
احمد فرید