EN हिंदी
یہ جو اک سیل فنا ہے مرے پیچھے پیچھے | شیح شیری
ye jo ek sail-e-fana hai mere pichhe pichhe

غزل

یہ جو اک سیل فنا ہے مرے پیچھے پیچھے

احمد فرید

;

یہ جو اک سیل فنا ہے مرے پیچھے پیچھے
میرے ہونے کی سزا ہے مرے پیچھے پیچھے

آگے آگے ہے مرے دل کے چٹخنے کی صدا
اور مری گرد انا ہے مرے پیچھے پیچھے

زندگی تھک کے کسی موڑ پہ رکتی ہی نہیں
کب سے یہ آبلہ پا ہے مرے پیچھے پیچھے

اپنا سایہ تو میں دریا میں بہا آیا تھا
کون پھر بھاگ رہا ہے مرے پیچھے پیچھے

پاؤں پر پاؤں کو رکھتا ہے چلا آتا ہے
مرا نقش کف پا ہے مرے پیچھے پیچھے

میری تنہائی سے ٹکرا کے پلٹ جائے گی
یہ جو خوشبوئے قبا ہے مرے پیچھے پیچھے

میں تو دوڑا ہوں خود اپنے ہی تعاقب میں فریدؔ
چاند کیوں بھاگ پڑا ہے مرے پیچھے پیچھے