ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں
اپنے سوائے کس کو موجود جانتے ہیں
عجز و نیاز اپنا اپنی طرف ہے سارا
اس مشت خاک کو ہم مسجود جانتے ہیں
صورت پذیر ہم بن ہرگز نہیں وے مانے
اہل نظر ہمیں کو معبود جانتے ہیں
عشق ان کی عقل کو ہے جو ماسوا ہمارے
ناچیز جانتے ہیں نا بود جانتے ہیں
اپنی ہی سیر کرنے ہم جلوہ گر ہوئے تھے
اس رمز کو ولیکن معدود جانتے ہیں
یا رب کسے ہے ناقہ ہر غنچہ اس چمن کا
راہ وفا کو ہم تو مسدود جانتے ہیں
یہ ظلم بے نہایت دشوار تر کہ خوباں
بد وضعیوں کو اپنی محمود جانتے ہیں
کیا جانے داب صحبت از خویش رفتگاں کا
مجلس میں شیخ صاحب کچھ کود جانتے ہیں
مر کر بھی ہاتھ آوے تو میرؔ مفت ہے وہ
جی کے زیان کو بھی ہم سود جانتے ہیں
غزل
ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں
میر تقی میر