اپنی زد پر تھے کھڑے ہم کو تو بچنا کیا تھا
جو ہوا ٹھیک ہوا اور تو ہونا کیا تھا
مرتے مرتے ہی مرے درد کی لذت کے حریص
بے مداوا جو نہ مرتے تو مداوا کیا تھا
اف وہ اطراف میں پھیلی ہوئی اشیا کا ہجوم
ہائے اس شور میں اک دل کا دھڑکنا کیا تھا
بے دلی ہائے نظارہ کہ مجھے یاد نہیں
سرسری دیکھا تھا کیا اور نہ دیکھا کیا تھا
رات اس بزم میں تصویر کے مانند تھے ہم
ہم سے پوچھے تو کوئی شمع کا جلنا کیا تھا
غزل
اپنی زد پر تھے کھڑے ہم کو تو بچنا کیا تھا
میر احمد نوید